غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ روزہ نور ہے کیونکہ روزہ کی حقیقت یہی ہے کہ لذتوں اور شہوتوں کو ترک کردینا، اور لذتوں و شہوتوں کے چھوڑ دینے سے خود مشاہدہ ہوسکتا ہے کہ قلب میں ایک نور اور انشراح کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ اور وجہ اس کی یہ ہے کہ:گناہوں کے دو درجے ہیں۔ ایک تو گناہوں کا تقاضا، اور ایک اس تقاضے پر عمل۔ اور جس طرح گناہ کرنے سے ظلمت ہوتی ہے اسی طرح گناہوں کے تقاضے سے۔ گویا بالفعل ظلمت نہیں مگر بالقوۃ ظلمت ضرور ہوتی ہے (یعنی یہ گناہوں کا تقاضا آگے چل کر ظلمت کا ذریعہ بن جاتا ہے) اور روزہ سے گناہوں کے تقاضے میں کمی آجاتی ہے۔ جب تقاضے میں کمی آجاتی ہے تو گناہوں میں بھی کمی آجاتی ہے۔ اس طرح روزہ سے ظلمت کے دونوں درجے ختم ہوجاتے ہیں۔ پھر روزہ کے نور ہونے میں کیا شبہ رہا۔
(احکام رمضان، صفحہ ۶۸، ملفوظات حکیم الامت، مجدد الملت حضرت مولانا اشرف علی صاحب (تھانوی رحمۃ اللہ علیہ)